Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر9

ایمان واپس جا کر اسی شش و پنج میں مبتلا رہی کہ اس کا مستقبل فیصل ہو گا یا عمیر...
ساجدہ بیگم نے محسوس کیا کہ وہ کچھ پریشان دکھ رہی ہے...
انہوں نے ایک دو بار اس سے پوچھا بھی مگر اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ زارا کی طبیعت نہیں اچھی۔۔۔اسی وجہ سے پریشان ہوں۔۔۔
آخر وہ بھی ماں تھیں۔۔۔ 
سمجھ گئیں کہ وہ اندر ہی اندر کوئی اور بات دل میں چھپائے بیٹھی ہے۔۔۔
کچھ کچھ بات انہیں سمجھ آ بھی رہی تھی۔۔۔
لیکن وہ یہ سوچ کر سر جھٹک دیتیں کہ ایمان ایسے کسی الٹے سیدھے چکر میں نہیں پڑ سکتی۔۔۔
رات دیر تک ایمان جاگتی رہی اور فیصل کے بارے میں سوچتی رہی۔۔۔
___________________________
فیصل نے گھر جاتے ہی آواز لگائی۔۔۔امی جان۔۔۔امی۔۔۔۔۔
کیا ہوا فیصل خیر ہے سب؟ وہ تیزی سے باہر نکلتے ہوئے بولیں۔۔۔
امی میں۔۔۔مجھے کچھ کہنا ہے۔۔۔ایک بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔وعدہ کریں انکار نہیں کریں گی۔۔۔
عظمی بیگم ہونک بن کے اسے دیکھ رہی تھیں۔۔۔
کیا بات ہے۔۔۔کچھ بتاؤ تو سہی پہلے۔۔۔
امی میں۔۔۔شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر لاؤنج میں موجود صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔
یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے میں تو کب سے تمہیں خود بھی کہہ رہی ہوں۔۔۔اور تم کہہ رہے ہو کہ انکار نہ کرنا۔۔۔
نہیں وہ بات نہیں ہے۔۔۔وہ سر جھٹک کر بولا۔۔۔
ہاں تو؟
میں۔۔۔لو میرج کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اس نے قدرے شرماتے ہوئے کہا۔۔۔اس کے شرمانے کی وجہ love میرج کا ذکر نہیں بلکہ ایمان کا تصور میں آ جانا تھا۔۔۔عظمی بیگم کے چہرے پر خفیف سی مسکان دیکھی جو آہستہ آہستہ باقاعدہ مسکراہٹ میں بدل گئی۔۔۔
کون ہے بھئی۔۔۔جو میرے بچے کو اتنی پسند آ گئی ہے۔۔۔رکو۔۔۔میں بتاتی ہوں۔۔۔
آرزوووو۔۔۔۔انہوں نے اس کا نام لمبا کرتے ہوئے کہا تو فیصل کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔۔۔
تم نے بتایا تھا اس دن کہ آرزو واپس آ گئی ہے کراچی سے۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔کوئی اور ہے کیا؟
فیصل نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔
جی۔۔۔آرزو میری اچھی دوست ہے بس۔۔۔لیکن میں۔۔۔شادی کسی اور سے کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
اس کا نام ایمان ہے۔۔۔
اس دن کامران کے گھر جاتے ہوئے میں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔۔۔
وہ مجھے پہلی نظر میں ہی اچھی لگی۔۔۔میری اس سے بات بھی ہوئی ہے اور میں نے اسے یقین دلایا ہے کہ آپ لوگوں کو راضی کر لوں گا میں۔۔۔
خدا کو مانو فیصل۔۔۔ابھی چار دن پہلے تو گئے ہو تم کامران کے گھر۔۔۔اتنی آناً فاناً تم نے اس سے شادی تک کی بات کر لی؟۔۔۔کیسی لڑکی۔۔۔
امی نہیں۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے جیسا  آپ سوچ رہی ہیں۔۔۔اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔
دراصل وہ ایک شریف، نیک اور اچھی لڑکی ہے۔۔۔ وہ تو کسی آنے جانے والے کو دیکھتی بھی نہیں ہے۔۔۔میں نے ہی اسے شادی کا پیغام بھیجا ہے۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔تمہارے ابو سے بات کروں گی صبح۔۔۔ابھی جاؤ سو جاؤ۔۔۔بہت رات ہو گئی ہے۔۔۔
امی۔۔۔وہ اٹھنے ہی لگیں تھیں کہ فیصل نے دوبارہ روک لیا۔۔۔
ایک پرابلم ہے۔۔۔
وہ کیا۔۔۔
اس کا رشتہ اس کے کزن سے ہونے جا رہا ہے۔۔۔اور وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔۔۔ایمان نے بتایا ہے۔۔۔اس کے والدین وہیں رشتہ کرنے پر تلے ہیں۔۔۔
اچھا اچھا فیصل۔۔۔صبح دیکھتے ہیں۔۔۔وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتے ہوئے اٹھیں تو فیصل بھی اٹھ کر چلا گیا۔۔۔
___________________________
فیصل نے شام کے بعد سے میرے ایک بھی میسج کا ریپلائے نہیں دیا۔۔۔آخر وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔وہ میری محبت کیوں نہیں جان پا رہا۔۔۔
آرزو نم آنکھوں کے ساتھ رات گئے اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی سوچ رہی تھی۔۔۔
اسے باہر کا سارا منظر بے رونق لگ رہا تھا۔۔۔
حالانکہ فیصل کے لیے وہی منظر باعث فرحت بنا ہوا تھا۔۔۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ جلد از جلد ایمان سے اس کا رشتہ ہو جائے۔۔۔ایمان۔۔۔اس نے ایمان کو میسج کیا۔۔۔
اس کا فوراً ہی 'جی' کا ریپلائے آیا تو فیصل نے وائس نوٹ سینڈ کر کے اسے آگاہ کر دیا کہ وہ اپنی امی سے بات کر چکا ہے۔۔۔
ایمان یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔۔۔اسے لگا کہ خدا نے عمیر سے جان چھڑانے کی خاطر ایک اچھا شخص اس کے لیے بھیج دیا ہے۔۔۔
___________________________
اس رات آرزو کی اداسی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔۔۔
وہ فیصل سے بات کرنا چاہتی تھی۔۔۔لیکن فیصل تھا کہ کوئی جواب ہی نہیں دے رہا تھا۔۔۔
___________________________
صبح اماں صدیقہ کے دروازے پر کھڑا ہو کر فیصل یہ سوچ رہا تھا کہیں اماں کو برا نہ لگے میرا روز روز آنا۔۔۔
پھر ہمت کر کے اس نے دروازے پر دستک دی۔۔۔
اماں نے ہمیشہ کی طرح اس کا پرتپاک استقبال کیا اور اندر آنے کا کہا۔۔۔
اماں۔۔۔میرا جی چاہتا ہے میں آپ کے پاس روزانہ آؤں۔۔۔کچھ دیر بیٹھوں۔۔۔آپ کو برا تو نہیں لگتا۔۔۔
نہیں نہیں میرے بچے۔۔۔مجھے بھلا کیوں برا لگنا ہے۔۔۔مجھے تو اچھا لگتا ہے تمہارا آنا۔۔۔
اچھا اماں آج بتائیں زرا میرے دل میں کیا ہے۔۔۔
اس نے ہاتھ نچاتے ہوئے بچوں کے سے انداز میں کہا تو اماں کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
بیٹا۔۔۔میں کوئی جادو گر تو نہیں ہوں۔۔۔بس ویسے ہی تمہارا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے تھوڑا بہت۔۔۔
میرے بچے۔۔۔یہ محبت۔۔۔پیار۔۔۔ ایک خوبصورت اور پاکیزہ جذبہ ہے۔۔۔وہ قدرے توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوئیں۔۔۔
اسے کبھی بھی بد گمانی اور غلط فہمی کا زنگ نہ لگنے دینا۔۔۔انہوں نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔۔۔
یہ محبت اگر حد سے گزر جائے نا تو اس کے  دو ہی اثرات ہوتے ہیں انسانوں پر۔۔۔
یا تو کھویا ہوا خدا مل جاتا ہے۔۔۔
یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ رک گئیں۔۔۔
فیصل نے ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولیں۔۔۔
یا ملا ہوا خدا کھو جاتا ہے۔۔۔
میرے بچے اس سفر میں بہت احتیاط سے رہنا۔۔۔یہاں قدم قدم پر رہزن (ڈاکو) موجود ہیں۔۔۔جو تم سے محبت چھیننے کی کوشش کریں گے۔۔۔انہیں خود پر حاوی نہ ہونے دینا۔۔۔فیصل نے کسی تابع فرمان شاگرد کی طرح سر ہلا دیا۔۔۔
اماں۔۔۔آپ کو بھی کبھی محبت ہوئی ہے؟
اس کے معصومانہ سوال پر اماں ایک بار پھر مسکرا کر رہ گئیں۔۔۔
ہوئی ہے۔۔۔بلکہ مجھے کیا سب کو ہوتی ہے۔۔۔
لگتا تو نہیں ہے۔۔۔فیصل فوراً بولا۔۔۔اس نے اپنی سی حالت کہیں اپنے ارد گرد نہیں دیکھی تھی پہلے۔۔۔
محبت کی مختلف اقسام ہوتی ہیں بیٹا۔۔۔اور ہر کوئی اسے اپنی نظر سے دیکھتا ہے۔۔۔
کسی کو محبت ہوتی ہے۔۔۔کوئی محبت کرتا ہے، اور کسی کو کرنی پڑتی ہے۔۔۔یہ ساری باتیں فیصل پہلی دفعہ سن رہا تھا اور اسے دلچسپ بھی لگ رہی تھیں۔۔۔لیکن اسے ہوٹل جانا تھا۔۔۔اماں میں کل آؤں گا۔۔۔اب مجھے نکلنا ہے۔۔۔اس نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے اجازت چاہی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔مجھے انتظار رہے گا۔۔۔انہوں نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔
___________________________
یار مجھے نوٹس کاپی کرنے ہیں رجسٹر دینا۔۔۔ابھی تومیرے بھی رہتے ہیں زارا۔۔۔ زارا کو یہ سن کر اچھا خاصا جھٹکا لگا
آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ ایمان کے نوٹس ان کمپلیٹ تھے۔۔۔
کیااااا؟ تمہارے نوٹس ان کمپلیٹ ہیں۔۔۔نا ممکن۔۔۔۔
لیکن اس کا رجسٹر دیکھنے پر زارا کو یقین آ ہی گیا۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔۔اس نے ایمان کی جانب متعجب نگاہوں سے دیکھا اور آنکھ کے اشارے سے اپنی ہمم کا مطلب بھی سمجھایا تو ایمان نے چہرے کا رخ پھیر لیا۔۔۔
ایمااااان۔۔۔۔زارا نے اسکا چہرہ ہاتھ سے اپنی جانب موڑا تو وہ اس کی جانب دیکھ کر ہنس پڑی۔۔۔
اس کا چہرہ خوب تر و تازہ اور شاداب دکھ رہا تھا۔۔۔یوں لگتا تھا جیسے اسے کوئی بڑی خوشی حاصل ہونے والی ہو۔۔۔
تو یہ بات ہے۔۔۔۔اسی لیے تمہارے نوٹس بھی رہتے ہیں ابھی۔۔۔
کبھی تو نکل آیا کرو یادوں سے مسٹر فیصل کی۔۔۔
وہ اور شرما گئی۔۔۔
زارا۔۔۔اس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔مجھے لگتا ہے۔۔۔کہ مجھے ان سے۔۔۔جانتی ہوں۔۔۔زارا نے اسے بولنے کی زحمت ہی نہ دی۔۔۔ایمان خود بھی خاموش ہو گئی تھی۔۔۔
___________________________
یار آج مجھے بھی بتاؤ فیصل۔۔۔یہ کیا سین ہے بھئی روز دن کو تمہارا جانا اور پھر واپس آ جانا۔۔۔
آج تو میں جان کر رہوں گا۔۔۔حمزہ فیصل کے آفس میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
کبھی تمہیں محبت ہوئی ہے حمزہ۔۔۔
نہیں۔۔۔مجھے کیوں ہونی ہے۔۔۔اور میرے پاس ان فضول چیزوں کے لیے ٹائم بھی نہیں ہے۔۔۔وہ کندھے اچکاتے ہوئے لاپروائی سے بولا۔۔۔
جب ہو جائے تو فضول نہیں لگتی۔۔۔
تمہیں بھی ہو گی تو پوچھوں گا۔۔۔
اوووہ۔۔۔تو جناب کو محبتیں ہو گئیں ہیں۔۔۔ حمزہ  نے منہ کا عجیب سا زاویہ بنا کر ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔۔۔چلو۔۔۔بیسٹ آف لک برو۔۔۔وہ اٹھ کر جانے لگا۔۔۔

   1
0 Comments